تحریر: مولانا سید غافر رضوی فلک چھولسی،مدیر ساغرعلم فاؤنڈیشن دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی | امام خمینی نے فرمایا: ''امام حسین کا طریقۂ کار سب کے لئے نمونۂ عمل ہے۔ ''کُلُّ یَوْمٍ عَاشُوْرًا وَکُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلَا'' کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں ہر روز اور ہر جگہ تحریک محرم کو قائم و دائم رکھنا ہے''۔
امام حسین اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ شہنشاہ وقت کے مقابل ڈٹ گئے اورعالم انسانیت کو یہ درس دیا کہ یہ تحریک ہمیشہ جاری و ساری رہنی چاہئے کہ باطل کے مقابل سر نہیں جھکانا بلکہ سر اٹھاکر جینا ہے۔
مذکورہ بالا جملہ بہت معنی خیز ہے جس کا کچھ لوگ غلط مطلب نکالتے ہیں،وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہرروز رونا چاہئے حالانکہ اس جملہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے!۔
ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کربلا نے کیا کیا!، کربلا نے کیا پیغام دیا!، زمین کربلا ہم سے کیا کہہ رہی ہے!؛ اس جملہ میں پوری کربلا سمیٹ دی گئی ہے، صرف رونا نہیں ہے...۔
وہ دیکھئے کربلا میں ایک طرف ہزاروں کے لشکر ہیں اور ایک طرف صرف بہتر!، چند لوگوں کے ساتھ امام حسین باطل کے مقابل آگئے، آپ نے باطل کے سامنے سرجھکانا برداشت نہیں کیا، ہماری بھی یہی فکر ہونی ہوچاہئے کہ اگر ہم حق پر ہیں تو باطل کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے چاہے اس راہ میں ہمارا سر تن سے جدا کردیا جائے!۔
ہمیں ہر روز عاشور کے منظر کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنا ہے اورہر زمین پر زمین کربلا کی یاد کو تازہ رکھنا ہے تاکہ مذکورہ جملہ کو معانی و مفہوم کا جامہ پہنایا جاسکے۔
اگر عام تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات معقول نظر نہیں آتی کہ بہتر لوگ، ہزاروں لوگوں کے مقابل کھڑے ہوجائیں لیکن اگرنگاہ معنویت سے دیکھا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ تو بہتر تھے لیکن اگرایسا وقت آجائے کہ ہزاروں کے سامنے اکیلے کوکھڑاہونا پڑے تو اکیلا انسان بھی ہزاروں کے مقابل کھڑا ہوسکتا ہے اور تن تنہا رہتے ہوئے بھی ہزاروں لوگوں کو شکست فاش دے سکتا ہے کیونکہ حق کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے اور باطل کو مٹنا رہتا ہے۔
رہبر معظم آیة اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: '' مجلسیں ایسی ہوں جن سے اہلبیت علیہم السلام کی محبت میں اضافہ ہو۔چونکہ جذباتی رابطہ نہایت قیمتی رابطہ ہے لہٰذا آپ کا فرض ہے کہ آپ ایسا طریقۂ کار اپنائیں کہ مجلسوں میں شریک ہونے والے افرادکے دلوں میں امام حسین اور خاندان پیغمبر ۖ کی محبت دن بہ دن بڑھتی جائے''۔
رہبر معظم کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ہمیں اپنی مجلسوں میں ایسی تقاریر کرنی ہیں اور ایسے بیانات دینے ہیں جن کے ذریعہ لوگ ہماری طرف دوڑ دوڑ کرآئیں ، اگر ہم مجلسوں میں ایسے حالات پیدا کردیں کہ سامعین نہ صرف یہ کہ جذباتی لحاظ سے اہلبیت علیہم السلام سے قریب نہ ہوں بلکہ اور دور ہوجائیں یا بیزاری کا احساس کرنے لگیں تو ایسی صورت میںنہ صرف یہ کہ اس مجلس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ایک لحاظ سے نقصان دہ بھی ہوگی۔
مجلسوں کے ذریعہ عوام کے ذہن میں عاشورا کے اصل واقعہ کی تصویر زیادہ سے زیادہ واضح کی جائے اور اس واقعہ کی صحیح معرفت کرائی جائے۔
ایسا نہ ہو کہ ہم حسین ابن علی علیہماالسلام کے نام پر منعقد کی گئی مجلسوں میں ایسی تقریریں کریں کہ اگر وہاں کوئی صاحبِ فکر و نظر انسان بیٹھا ہوتو یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ ہم اس مجلس میں کیوں شریک ہوئے ہیں؟۔
ہمارا بیان ایسا ہونا چاہئے کہ اگر مجلس میں شریک ہونے والے کسی انسان کے ذہن میں کچھ سوالات سر اٹھائیں تو اس کو ہماری تقریر سے ہی سب سوالوں کے جواب مل جائیں مثلاً:کربلا میں کیا ہوا تھا؟ امام حسین پر کیوں رونا چاہئے؟ امام حسین کربلا میں کیوں آئے تھے؟ عاشوراکی کیا ضرورت تھی؟ ہزاروں کے مقابلہ میں بہتر لوگ کیوں آگئے کیا معاذاللہ یہ ہلاکت نہیں ہے! اور نہ جانے انسانی ذہن میں کتنے سوال جنم لے سکتے ہیں تو تمام سوالوں کے جواب ہمارے منبر سے مل جائیں۔
اگر ہم منبر پر آکر طوطے اڑاکر چلے جائیں تو اس کو منبر کی چولہیں ہلانا تو کہا جاسکتا ہے تبلیغ نہیں کہا جاسکتا حالانکہ منبررسولۖ تبلیغ و ترویج دین اور بیان حقائق کے لئے بنایا گیا ہے۔
صاحب منبر کے لئے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ منبر پر جانے سے پہلے یہ سوچے کہ منبر پر کس کی رضایت کے تحت جارہا ہے؟ وہ اپنی انانیت کی وجہ سے جارہا ہے؟ بانی مجلس کی خوشنودی کے لئے منبر پر جارہا ہے؟ یا ائمہ اطہار علیہم السلام اور خدا کی رضایت کے تحت منبر پر جا رہا ہے؟۔
اگر اپنی انانیت کی وجہ سے منبر پر جانا چاہتا ہے تو اپنے دل کے پھپھولے پھوڑکر منبر سے اتر آئے گا اور عوام کو کچھ نہیں دے گا۔
اگر بانی مجلس کی خوشنودی کی خاطر منبر پر جارہا ہے تو طوطے فاختے اڑائے گا، جیب گرم کرے گا اور نکل جائے گا لیکن نتیجہ میں عوام کو کیا ملا؟ لہٰذا ایک ہی صورت باقی ہے کہ اگر خطیب کی نظر میں خداوندعالم، پیغمبراکرمۖ، امام حسین ، جناب سیدہ اور دیگر ائمہ اطہارعلیہم السلام کی رضایت ہوگی تو وہ منبر کے حق کو سمجھے گا اور حتّی الامکان یہ کوشش کرے گا کہ حقّ منبر ادا کردے۔
بانی مجلس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ مجلس کو اپنی مجلس نہ سمجھے بلکہ امام حسین کی مجلس سمجھے کیونکہ جب تک انسان مجلس کو اپنی مجلس سمجھتا رہے گا تب تک ایسے ذاکرین کی تلاش میں رہے گا کہ اس کی مرضی کے مطابق مجلس پڑھ سکیں لیکن جب منزل یہ آجائے گی کہ مجلس میری نہیں بلکہ امام حسین کی ہے تو بانی مجلس اپنی مرضی والے ذاکرین کی جستجو میں نہیں رہے گا بلکہ ایسے ذاکرین کو تلاش کرے گا جو حق بیانی میں مشہور ہوں، جوقیامِ امام حسین کے اہداف اور مقاصد کربلا کو من و عن بیان کرتے ہوں، جو خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتے ہوں۔
جب بانیان مجالس اس منزل پر ہوں گے تو طوطے اڑانے والے خطباء گوشہ نشین ہوجائیں گے اور منبر پر وہ لوگ نظر آئیں گے جو منبر کے اصل حقدار ہیں۔
اس مضمون کا لبّ لباب یہ ہے کہ خطا صرف ان لوگوں کی نہیں جو منبر پر جاکر طوطے اڑا رہے ہیں بلکہ ان سے کہیں زیادہ غلطی بانیان مجلس کی ہے کیونکہ بانیان مجالس اپنی اور عوام کی پسند کے مطابق ذاکرین کو منبر پر بیٹھاتے ہیں، انہیں اس چیز سے کوئی مطلب نہیں کہ وہ منبر سے کیا پیغام دے کر جارہے ہیں!۔
پروردگارعالم! ہمیں بصارت سے زیادہ بصیرت عطا فرما تاکہ ہم حقیقی عزادار بن سکیں اور حق بیانی کا جذبہ زیادہ سے زیادہ ہوسکے ۔ ''آمین''
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔